Sunday, January 13, 2013


سندھ کے باسیوں کیلئے یہ خبر حیرت کا باعث سندھ کے باسیوں کیلئے یہ خبر حیرت کا باعث ہے کہ شاہ زیب کے قاتلوں کو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالا ہے جدید دور میں کسی بھی مجرم کا قانون سے بچنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے کیونکہ جدید شواہد اور تفتیش کی بنیاد ریاست سے منسلک سرکاری اورکورٹ میں گھومنے والے کرائے کے گواہوں نہیں بلکہ ساینسی بنیادووں پر جمع کیئے گئے شواہد پر ہے جن میں فنگرپرنٹ،ڈی این اے ٹیسٹ ،موبائل فون ریکارڈ،کلوزسرکٹ کیمرے کی ریکارڈنگ اوربینک ٹرانزیکشن وغیرہ مختصر یہ کہ پاکستان میں جرائم کے خاتمے کےلیئے وہ تمام زرائع موجود ہیں جن کو استعمال میں لاکر جرم کا خاتمہ ممکن ہے اہم رکاوٹ تفتیش کے دوران وسائل کے استعمال اورسماعت کے دوران عدلیہ کی نااہلی اور مشکلات ہیں کیونکہ عدلیہ کی بھی مجبوری ہے کہ وہ مخصوص وکلاء کو ریلیف دے یعنی انصاف کا قتل کرے کیونکہ اگر کچھ خاص قسم کے وکلاء کو ریلیف نہ دیاجائے تو بار اور بنچ کے تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ظاہر ہے باراور بنچ گاڑی کے دوایسے پہیئے ہیں جن کا ساتھ چلنا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل کراچی میں بار کے صدارت اور جنرل سیکرٹری کے الیکشن کے اخراجات ایک کروڑ روپیہ اور لاہور میں دو کروڑ سے بھی تجاوز کرگئے ہیں یہ اخراجات قتل کے ایک کیس کے ضمانت کے ریلیف سے ہی پورے ہوجاتے ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر کا ایک "چیمبر" اسٹے سارے خرچے نکال دیتا ہے کچھ خاص لوگوں کے آڑ میں کچھ مخصوص لوگ بھی شامل ہوجاتے ہیں جن کے ریلیف میں ریلیف دینے والے کا بھی" ریلیف" شامل ہوتا ہے اسی طرح کچھ ریلیف کورٹ کے "خاص اسٹاف" کیلئے بھی ہوتا ہے اس ریلیف میں ریلیف خاصا تقسیم ہوجاتاہے تفتیشی پولیس کے بغیر ریلیف کا عمل ناممکن ہے اور وہ کیس کو کمزور کرکے شواہد کو ضائع کرنے کے بعد مدعی اور ملزم سے کیس کے اخراجات کی مد میں اچھی خاصی رقم وصول کرنے کے بعد مبہم قسم کاچالان پیش کرتی ہے جس کو بغیر مطالعہ کرکے بعض مجسٹریٹ حضرات انتظامی آرڈر کردیتے ہیں انصاف کی راہ میں سب بڑی غلطی یہاں ہوتی ہے جب مجسٹریٹ پولیس چالان پر انتظامی نوعیت کا آرڈر کررہاہوتا ہے تو اس وقت تمام اسٹیک ہولڈرز کے دل دھڑک رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب کسی بے گناہ کے قاتل کو ایک انتظامی آرڈر کے زریعے اصل تحفظ دیا جا تا ہے لیکن اب کچھ مجسٹریٹ حضرات اپنی زمہ داری کا احساس کرتے ہیں اور مطالعہ کرنے کے بعد تفتیش کی کمزوریوں کو دور کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کسی تفتیشی افسر کے خلاف باقاعدہ کاروائی کا رواج نہیں ہے چونکہ شعبہ تفتیش کو مستقل ریلیف ملتا ہے اس لیئے ان کو ریلیف حاصل کرنے کے لیئے عدلیہ کو زیادہ ریلیف نہیں دینا پڑتا ملزمان اور مدعی سے حاصل شدہ ریلیف سے سب سے زیادہ فائدہ تفتیشی افسران ہی کو ہوتا ہے ایک تفتیشی افسر کا قول ہے "پولیس کا بے گناہ کبھی عدالت میں گناہ گار نہیں ہوسکتا" جب کیس کی سماعت کے دوران کمزور تفتیش سامنے آتی ہے تو اس وقت اصل قصور وار عدالت اپنے مجسٹریٹ کو نہیں قراردیتی بلکہ پولیس کو ہی قرار دیاجاتا ہے حالانکہ پولیس اور عدلیہ جرائم کو قانونی تحفظ دینے میں برابر کے شریک ہیں پولیس کی کمزور تفتیش کو مکمل عدالتی تحفظ حاصل ہوتا ہے اور کیا پولیس کی تفتیشی رپورٹ پر مجسٹریٹ انتظامی آرڈر نہیں کرتا ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد کسی بھی ملزم کو جو عدالت میں تکلیف ہوتی ہے وہ تاریخیں لگانے کی ہے کیونکہ کیس میں تاخیر سے ان کو عدالت سے باعزت بری ہونے کا جو سرٹیفیکیٹ ملتا ہے اس میں کافی تاخیر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قبول داری کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے "قبول داری" یہ وہ ریلیف ہے جس کو سن کرآپ کا دل دیوار پر ٹکریں مارنے کو کرے گا اس لیئے اس ریلیف کا زکر ہی نہیں کرتے اب پولیس میں ایک نیا رواج چل نکلا ہے کہ وہ ملزم گرفتار ہی نہیں کرتی مختصر یہ ہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے انصاف کی فراہمی ناممکن ہوچکی ہے کتنی ہی جوڈیشل پالیسیاں آجائیں کتنی ہی عدلیہ آزاد ہوجائے پولیس اور عدالتوں کی بھی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے کافی مشکل ہوجاتی ہے لیکن شاہ زیب قتل کیس ایک روشن مثال ہے کہ اگر عدلیہ اور پولیس چاہیں تو کسی بھی ملزم کو پاتال سے بھی ڈونڈھ کر نکالاجاسکتاہے لیکن اس ایشوپر بحث کی ضرورت ہے یہ بھی ایک الگ بحث ہے کہ کیا ہم جرائم کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں یا صرف اور صرف عدالتی فیصلے کرنا چاہتے ہیں چیف جسٹس پاکستان یہ ایک حقیقت ہے کہ فوجداری عدالتیں اپنی سمت کا تعین کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں جرائم پرورش پارہے ہیں SAFIUDIN AWAN 03343093302

غریب عوام اور عدلیہ کراچی کے نواحی علاقوں میں یونایٹڈ نیشن ڈیولپمنٹ پروگرام کی جانب سے کراچی کے نواحی علاقوں میں تقریباً 30 لیگل ایڈ کلینک لگائے گئے جہاں کمیونٹی کی سطح پر عوام الناس کو نہ صرف مفت قانونی مشورے دیئے گئے بلکہ ان کو مفت قانونی امداد کی پیشکش بھی کی گئی اس دوران مجھے تقریباً زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا وہیں عوام کی وکلاء اور عدلیہ کی متعلق رائے جاننے کا بھی موقع ملا جوکہ ایک دلچسپ تجربہ تھا یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ رائے اتنی اچھی نہ تھی لیکن ایسے شکوے تھے جو اپنوں ہی سے ہوتے ہیں ایک طالبعلم نے بتایا کہ "اس کے گھر میں ڈاکو داخل ہوئے اور ان کو یرغمال بنا کر لوٹ مار شروع کردی لوٹ مار کے دوران ایک ڈاکو نے فریج کا دروازہ کھولا اور گلاس میں پانی ڈال کر پیا اسی دوران ڈاکو اپنے ساتھ لائے ہوئے فروٹ بھی کھاتے رہے اور سکون سے لوٹ مار کرکے فرارہوگئے پولیس کو اطلاع دی اور جب وہ وقوعہ دیکھنے آئے تو میں نے ان کو بتایاکہ ڈاکو نے سامنےرکھے فریج کا دروازہ کھول کرگلاس میں پانی پیا ہے وہاں ان کی انگلیوں کے نشانات موجود ہوں گے جس پر پولیس والے مجھے یوں دیکھنے لگے جیسے میں نے ابھی ابھی ابن صفی کا ناول پڑھ لیا ہو اور یا ان کو کوئی گھسا پٹا لطیفہ سنادیا ہو جس کے بعد انہوں نے لاپروائی سے فرج ک دروازہ کھولا جس سے انگلیوں کے نشانات ضائع ہوگئے اسی دوران انہوں نے گلاس کو بھی لاپروائی سے اٹھا کر اس پر موجود انگلیوں کے نشانات ضائع کرکے گلاس کا یوں مشاہدہ کرنے لگے جیسے ڈاکو ڈاکہ مارنے کے بعد گلاس میں چھپے بیٹھے ہوں اسی دوران جائے وقوعہ پر موجود ڈاکوؤں کے کھائے ہوئے فروٹ کے چھلکے اور ایک تھیلی میں سیب بھی موجود تھے جسے پولیس والے ساتھ لے گئے جب ہم تھانے لے گئے تو پولیس والے اس اہم شہادت یعنی سیب کو کھارہے تھے یہ دیکھ کر ہی ہم سمجھ گئے کہ اب ہمارا لوٹا ہوا مال ہمیشہ کیلئے لٹ گیا ہے" اس پر اب مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں سمجھتا اسی طرح ہرجگہ عدالتوں کی سیڑھیوں کے چرچے سنائی دیئے لوگ انصاف حاصل کرنے کیلئے عدالتی سیڑھیوں کے شکوے کرتے نظرآئے بےشمار خامیوں کے باوجود بلدیاتی نظام سے منسلک مصالحتی کمیٹیوں کے بارے میں عوام نے نہ صرف مثبت رائے کا اظہار کیا بلکہ حقیقت سے بھی قریب تر قرار دیا کیونکہ عوام کی رسائی منتخب بلدیاتی نمائندوں تک باآسانی ہوتی ہے کمیونٹی کی سطح پر مراد میمن گوٹھ ملیر کی خواتین نے بتایا کہ ان کیلئے عدالت میں جانا کافی مشکل ہے کیونکہ آج کل نادرا کی جانب سے اکثر خواتین کوسول عدالت میں کیس داخل کرنے جانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کو پریشانی ہوتی ہے جس طرح عوام کا پولیس کے متعلق ذہن بن گیا ہے اسی طرح عدلیہ سے متعلق بھی ایک سوچ ہرجگہ پیدا ہوگئی ہے وہ عدم اعتماد کی نہیں وہ سوچ عدم تعاون کی ہے وہ سوچ لاعلمی کی ہے عوام نہیں جانتے کہ ان کو انصاف کس طرح ملے گا اسی طرح عوام اور عدلیہ کے درمیان فاصلے اس لیئے موجود ہیں کہ عدلیہ کافی سارے معاملات میں لکیر کی فقیر بنی ہوئی ہے ماتحت عدلیہ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کتراتی ہے ماتحت عدلیہ کسی تھانے سے غیرقانونی حراست تو ختم کرادیتی ہے لیکن پولیس افسران کے خلاف قانونی کاروائی کرنا مشکل ہوجاتا ہے صرف ایس ایچ او کو ڈانٹ کر ہی گزارا کرلیا جاتا ہے عدالت ایف آئی آر درج کرنے کیلئے مدعی کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم تو جاری کردیتی ہے لیکن ایف آئی آر جھوٹی ہونے کی صورت میں مدعی کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی فیملی مقدمات میں بھی ججز اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کافی گھبراہٹ کا شکار رہتے ہیں حالانکہ جج کو دلیر ہونا چاہیئے بروقت انصاف نہ ملنے کی وجہ سے خواتین کی اکثریت اپنے مقدمات ادھورے ہی چھوڑدیتی ہیں جوکہ بعد ازاں عدم پیروی پر خارج ہوجاتے ہیں اسی طرح خواتین کی جانب سے فیملی مقدمات میں بار بار عدالتی نوٹسز جاری کرنے کے عمل کو غیر حقیقت پسندی پر مشتمل عمل قرار دیا کیونکہ یہ بھی رواج ہے کہ مخالف پارٹی مقدمے کو عدالتی عملے کے ساتھ مل کر دیکھتی رہتی ہے اور بار بار کے عدالتی نوٹسز کے چھ مہینے کے بعد جب پبلیکیشن بھی ہوجاتی ہے تو اگلی تاریخ پر مخالف پارٹی پیش ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے خواتین کے کافی اخراجات ہوجاتے ہیں خواتین کا مطالبہ تھا کہ فیملی تناذعات میں بھی بار بار مخالف فریق کو نوٹسز جاری کرکے قیمتی وقت ضایع کرنے کی بجائے اگر پبلیکیشن پیسٹنگ اور بزریعہ ڈاک تمام نوٹسز ایک بار ہی جاری کردیئے جایئں تو مقدمات تیزی سے نمٹ سکتے ہیں کیونکہ مقامی خواتین مقدمے کے ابتدائی مرحلے میں ہی مایوس ہوجاتی ہیں خواتین نے تنازعات کے حل کیلئے متبادل عدالتی حل کو کافی پسند کیا اور اس پر تعاون کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ اس طریقہ کار کو اگر بھرپور طریقے سے رائج کیا جائے تو اس کے بھرپور اثرات نظر آئیں گے عدلیہ سے بے پناہ شکایات کے باوجود عدالتوں پر عوام کا اعتماد اس بات کی دلیل ہے کہ عوام عدالتوں سے نہیں بلکہ عدالتی نظام سے تنگ ہیں اور نظام سے منسلک معمولی نوعیت کی شکایات بھی حل کرنے میں وہ تمام افلاطون ناکام ثابت ہوئے ہیں جو ہرسال جوڈیشل پالیسی بنانے کیلئے اسلام آباد میں جمع ہوتے ہیں عوام کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے عدلیہ کو فوری طور پر ماتحت عدلیہ میں کم ازکم فیملی مقدمات پر تو بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے

اہلیان سندھ کو خوشخبری اہلیان سندھ کو خوشخبری ہو کہ مجسٹرٰیٹ کی پچاس لاکھ روپے سے زیادہ مالیت والی سیٹوں پر میرٹ کی بنیاد پر 45 امیدواروں کو منتخب کرلیا گیا ہے اس سے پہلے بھی ایک بیج میرٹ کی بنیاد پر منتخب کیا جا چکا ہے اس طرح سندھ کے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے میرٹ پر تقرریاں کرکے اپنا وعدہ پورا کردیا ہےایسے وکلاء مجسٹریٹ بنے جو کہ خواب میں بھی رشوت اور سفارش کا سوچ نہیں سکتے تھے ماضی میں مجسٹریٹ کی سیٹوں پر کروڑوں روپے کما کر پیشکار اور اسٹینو ٹائپ افراد کو ان سیٹوں پر لگایا جاتا رہا ہے جو کہ سندھ کی ماتحت عدلیہ کیلئے آج بھی مستقل ناسور بنے ہوئے ہیں ایسے ناسوروں کے خلاف کاروائی ممکن بھی نہیں کیونکہ عدلیہ آزاد ضرور ہوئی ہے لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ رشوت خور جج کے خلاف کاروائی بھی کرنی ہوگی کیونکہ ماضی میں رشوت دے کر بھرتی ہونے والے ناسوروں کے ہاتھ افتخار چوہدری سے بھی زیادہ مضبوط ہیں آپ آزما کر دیکھ لیں سندھ کے کسی رشوت خورپیشکار اسٹینو ٹائپ ناسورجج کے خلاف کتنی ہی مضبوط شواہد کے ساتھ درخواست متعلقہ ادارے ایم آئی ٹی کو دیکر تو دیکھیں کسی قسم کی کاروائی تو دور کی بات اگر "بار" جیسا ڈنڈاپیر موجود نہ ہو تو وکیل صاحب "اندر" بھی ہوسکتے ہیں ویسے سندھ کی ایم آئی ٹی کو بھی پنجاب سے سبق سیکھنا چاہیئے کیونکہ جب کورٹ اسٹاف اور ججز کی تنخواہ پنجاب کے ججز کے برابر کرنے کیلئے پنجاب سے سبق سیکھا جا سکتا ہے تو احتساب کیلئے بھی پنجاب کی ایم آئی ٹی سےہی سے سبق سیکھ لیں کہ کس طرح رشوت لینے والے ججز عبرت کا نشان بن جاتے ہیں سندھ کی ماتحت عدالتوں میں میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں کے بعد کیا ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ رشوت خور ججز کے خلاف کاروائی بھی تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی کیونکہ گنتی کے چند ناسور ججز جن کو سب جانتے ہیں ان اکثریتی ججز کیلئے بھی شرمندگی کا باعث بنتے ہیں جن کا دامن رشوت سے پاک ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ سندھ کی عدلیہ میں ایسے ججز بھی موجود ہیں جو میرٹ کے معاملے میں کسی قسم کی سودے بازی نہیں کرتے اور بعض اوقات بڑی سے بڑی سفارش اور دباؤ کو خاطر میں نہ لاکر اپنی اور اپنے پورے خاندان کی جان کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں ایسے لوگ بلاشبہ خراج تحسین کے مستحق ہیں

پاکستان کے مایہ ناز صحافیوں کو سوشل میڈیا سے وابستہ نوجوانوں کے سامنے وضاحتیں پیش کرنا پڑیں زندگی کے ہر شعبے سوائے عدلیہ کے سوشل میڈیا نے اپنا رول ادا کیا ہے یہ ایک ایسا فورم بن چکا ہے ہے جہاں سفارش اور دباؤ جیسے ہتھکنڈے ناکام ہوجاتے ہیں لیکن عدلیہ کیوں نہیں اس کی اہم وجہ نوجوانوں کا قوانین سے لاعلم ہونا ہے نوجوان وکلاء کی زمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے زریعے حقائق سامنے لایئں کہ کس طرح اکیسویں صدی میں بھی تفتیشی عمل میں بھی شواہد کو ضائع کرکے تفتیش کا عمل آگے بڑھتا ہے کیسے اکیسویں صدی میں بھی کرائم سین کو محفوظ کرنے کی روایت موجود نہیں فنگر پرنٹ اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو مزاق سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں تو سوشل میڈیا کا استعمال بار کا الیکشن جیتنے تک ہی محدود رہ گیا ہے پاکستان کے نوجوان وکلاء تبدیلی کے علمبردار ہیں ہمیں امید ہے کہ نوجوان وکلاء کے گروپ اس حوالے سے کام کریں گے حقائق کو سامنے لا کر ہی مسائل حل کیئے جاسکتے ہیں پاکستانی عوام عدلیہ کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور ہماری ساری امیدوں کا مرکز نوجوان وکلاء ہیں ہم نوجوان وکلاء سے امید رکھتے ہیں کہ ضلع کچہری میں جج کا گن مین "ریاست" مونچھوں پر تاؤ دےکر مقدمات پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اور کس طرح گواہی قلمبند ہوتی ہے اور کس طرح ملزم ہربار اور پھر بار بار باعزت بری ہوجاتے ہیں ہم دنیا سے الگ نہیں پوری دنیا میں اکیسویں صدی کا سورج طلوع ہوسکتا ہے تو پاکستانی ماتحت عدالتوں میں بھی اکیسویں صدی کے سورج کو طلوع ہونے سے زیادہ دیر نہیں روکا جاسکتا یاد رکھیں ماتحت عدالتی نظام مضبوط ہوگا تو اس کے اثرات پورے معاشرے پر اثرانداز ہوں گے

منظم ترین بدانتظامی، تبدیلی کا عمل اور نوجوان وکلاء اگر انصاف تک فوری رسائی کا پرگرام کامیاب ہوجاتا ہے عدالتی نظام میں بد انتظامی دور ہوجاتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ عوام ،سول سوسائٹی وکلاء اور بالخصوص "نوجوان وکلاء" کو ہوگا کیونکہ ایک منظم ترین بدانتظامی کی وجہ سے ماتحت عدلیہ بحران کا شکار رہتی ہے عوام کو انصاف نہیں ملتا جس کی وجہ سے لوگ مایوس ہوکر عدالتوں کا رخ نہیں کرتے کیونکہ بدانتظامی کا یہ عالم ہے کہ ایک انتہائی "منظم ترین بدانتظامی" کے زریعے ماتحت عدلیہ کو قیام پاکستان سے لیکر آج تک ایک "خاص" طریقے سے چلایا جارہا ہے جس کی وجہ سے مقدمے بازی کے زریعے انصاف حاصل کرنا ناممکن ہے عوام انصاف کیلئے تو عدالت میں آتے ہی نہیں کسی مجبوری کی وجہ سے اگر عدالت سے" واسطہ" پڑبھی جائے توباقی عمر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے عدالتی بدانتظامیوں پر طنز کرتے ہوئے گزرتی ہے عدلیہ بھی تبدیلی کے عمل سے گزررہی ہے بعض اوقات تبدیلی کا عمل جب شروع ہوتا ہے تومزاحمت بھی ہوتی ہے کیونکہ بدانتظامی ختم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ" منظم ترین بدانتظامی" ہے موجودہ دور بھی بدانتظامی سے بہتری کی طرف جانے کا دور ہے ہم سب کو چاہئے کہ جو تبدیلی کے عمل کے دوران غلطی نظرآئے اس کی نشاندہی کریں تبدیلی کا عمل ناخوشگوار تو ہوسکتا ہے لیکن اس کا اختتام ایک بہتر تبدیلی کی صورت میں اسی صورت میں نکل سکتا ہے جب تبدیلی پر یقین رکھنے والے منظم ہوں اور ان کی سوچ یہ ہوکہ ہر صورت میں انصاف کا بول بالا ہوعوام چاہے غریب ہوں یا امیر ان کو انصاف اس طرح ملے کہ وہ سب کو نظر بھی آئے وکلاء مقامی سطح پر فورم تشکیل دیں عدالتی نظام میں بہتری لانے کیلئے فوکس گروپ ڈسکشن تو نوجوان وکلاء کسی بھی بار روم میں بیٹھ کر کر سکتے ہیں جو مسائل نظر آرہے ہوں جو مشکلات پیش آرہی ہوں ان کی نشاندہی سیشن جج ،ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور چیف جسٹس آف پاکستان کو کی جاسکتی ہے لیکن مقامی سطح پر آپ کا سیشن جج ہی بہترین فورم پے ضلعی سطح پر لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹیزکی تشکیل کیلیے رولز اور کروڑوں روپے کے فنڈز پورے پاکستان کے ڈسٹرکٹ ججز کو جاری کردیئے ہیں ان کمیٹیوں میں "بار" کے صدر اور سیشن جج کو انتظامی اختیارات حاصل ہیں نوجوان وکلاء کوشش کریں کہ ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹیز کے آفسز بار میں قائم کرنے کیلئے با رسے درخواست کریں اور کسی بھی قسم کے پروپیگنڈے کا شکار ہونے سے پہلے ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹیز کے ان رولز کا مطالعہ ضرور کرلیں جو کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے تشکیل دیئے ہیں آن لائن مطالعہ کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ قانونی امداد کی مد میں حکومت جو بھی فنڈز سرکاری اداروں کو جاری کرتی ہے وہ کم ہی استعمال ہوتے ہیں جیساکہ ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹیز کی مد میں مختص کئے گئے فنڈز جو کہ صرف اور صرف ان وکلاء کی فیس ہےجو کہ ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹیز کے پینل پر موجود وکلاء غریب افراد کو قانونی امداد فراہم کریں گے لیکن ایک "انتہائی منظم ترین بدانتظامی" کا نتیجہ دیکھ لیں کہ وہ فنڈز ابھی تک کوشش کہ باوجود استعمال نہیں ہوئے اور نہ ہونگے لیکن کتنے وکلاء ہیں جنہوں نے اس حوالے سے لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے چئیرمین افتخار محمد چوہدری کو آگاہ کیا ہے کہ ان کا سیشن جج وکلاء کی فیسوں کی مد میں ملنے والے پیسے خرچ نہیں کرنا چارہا عدالتوں میں دور دراز سے آنے والے غریب سائلین جو عدالتی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے آج بھی اسی لیئے پریشانیوں کا شکار ہیں کیونکہ ضلعے کا مقامی سیشن جج فنڈز ہونے کے باوجود ان کا استعمال نہیں کررہا وکلاء بحالی تحریک کے دوران ہمارے ساتھ سرگرم سول سوسائٹی کے ادارے بھی آج یہی سوالات اٹھاتے ہیں کہ کہ غریبوں کو قانونی امداد کی فراہمی کیلئے زوروشور سے بنائی گئی کمیٹیوں کا انجام کیا ہوا لیکن وکلاء کی اکثریت تو ابھی تک ڈسٹرکٹ لیگل ایمپاورمنٹ کمیٹیزکے نام سے بھی واقف نہیں جوکہ وکلاء کیلئے یقینناً ایک المیہ ہے موجودہ صورتحال میں وکلاء کے ہرطبقے کو اس پر غور کرنا ہوگا کہ کورٹ میں ہونے والی ہڑتالوں نے پیشہ وکالت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے عدالتی کلچر میں تبدیلی ہمارا مقدر ہے اور اس سارے عمل میں نوجوان وکلاء اور لیگل رائٹس فورم کا کردار فیصلہ کن ہوگا اور ہم نوجوان وکلاء کے ساتھ مل کر تبدیلی کے عمل کے دوران فیصلہ سازی کے عمل پر بھرپور طور پر اثر انداز ہوںگے جس طرح 2009 میں وکلاء بحالی کی مہم کے دوران لیگل رائٹس فورم نے 2009 کو نوجوان وکلاء کے سال کے طورپر منانے کا اعلان کیا تھا بعد ازاں لیگل رائٹس فورم کی درخواست پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 2009 کو نوجوان وکلاء کے سال کے طور پر منانے کا اعلان کرکے ثابت کیا تھا کہ وہ اصل طاقت کا محور نوجوان وکلاء ہی کو سمجھتے ہیں عدالتی نظام کو دورجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے کی جانے والی تبدیلیوں کی کوشش پر بے جا تنقید کرنے والے عناصر کی خدمت میں صرف دو اقوال پیش کرنا چاہتے ہیں ہزاروں برس قبل چینی فلسفی کنفیوشس نے کہا تھا’’تبدیلی کو صرف دو انسان ناپسند کرتے ہیں…ذہین ترین اور سب سے پاگل!‘‘اسی طرح یونانی فلسفی،ہیراکلیٹس نے دنیاوالوں کو بتایا ’’تبدیلی کے سوا کرہ ارض پہ کوئی شے مستقل نہیں۔‘‘ Safiudin Awan General Secretary Legal Rights Forum safilrf@gmail.com

کراچی کے قدیم گوٹھ ایک تاثر کراچی کے گردونواح میں واقع گوٹھوں کے متعلق سن تو کافی عرصے سے رہے تھے لیکن وہاں جانے کا اتفاق کبھی نہ ہوسکا تھا یونائٹڈ نیشن ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت جب وہاں جانا ہوا تو ان گوٹھوں میں سول سوسائٹی کا اچھا کام وہاں نظر آیا کراچی ملیر سے متصل گوٹھوں میں موجود سول سوسائٹی کی سب سے اہم خوبی پائداری ہے وہاں بیرونی این جی اوز کا شور شرابہ کم اور مقامی لوگوں کی جانب سے اپنی برادری کیلئے کیئے گئے اقدامات زیادہ نظر آتے ہیں جن میں کمیونٹی سینٹرزاور اسکولوں کاقیام نمایاں ہے مقامی سطح پر کراچی رورل نیٹ ورک (کرن) جسے" ایس پی او" اور "ہینڈز" نے سپورٹ کیا ہے کی لوگوں میں بھرپور پزیرائی نظر آئی اسی طرح سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور ہاشم خاصخیلی ویلفئر سوسایئٹی کا بھرپور رول نظر آیا میں جب ملیر کے مراد میمن گوٹھ گیا تو وہاں پر مجھے دیہی زندگی عروج پر نظر آئی وہ سادگی نظر آئی جس کی تمنا کراچی میں ہم کرتے ہیں خواتین کھیتی باڑی میں مردوں کا ہاتھ بھی بٹاتی ہیں اور ان کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی بھی ہے ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرنے کا رواج ابھی تک زندہ ہے وہاں ایک قریبی گوٹھ کا لڑکا نورمحمد بلوچ حال ہی میں مجسٹریٹ کے امتحان میں کامیاب ہوا تھا جس پر مقامی باشندے بہت خوش تھے اور وہ سب اپنے لیئے اعزاز سمجھ رہے تھے اور اس کی کامیابی کو ذاتی اور علاقے کی کامیابی سمجھ رہے تھے اسی طرح جب مقامی خواتین کے ساتھ جب نشست ہوئی تو اندازہ ہواکہ گوٹھ میں رہنے کے باوجود ان میں بھرپور سیاسی شعور پایا جاتا ہے خواتین کی اکثریت کے پاس شناختی کارڈ موجود تھے خواتین کی اکثریت ووٹ بھی کاسٹ کرتی ہے اور ووٹ اپنی مرضی سے دیتی ہے کافی خواتین خوش تھیں کہ وہاں شہید ذوالفقارعلی بھٹو گورنمنٹ لاء کالج کا افتتاح بھی ہوچکا ہے اور کلاسز کابھی آغاز ہوچکا ہے ان کی پرانی خواہش پوری ہوگئی تھی کہ اب ان کی بچیاں باآسانی وکیل بن سکتی ہیں ایک خاتون نے بتایا کہ 1990 میں میری خواہش تھی کہ میں وکیل بنوں لیکن غربت اور لاء کالج دور ہونے کی وجہ سے یہ خواہش دل میں ہی رہ گئی تھی لیکن اس کی بیٹی نزدیکی کالج سے تعلیم حاصل کرکے اس کی خواہش ضرور پوری کرے گی خواتین نے کہا اب ہم حکومت سے یونیورسٹی کا مطالبہ بھی کررہی ہیں خواتین نے بتایا کہ ان کو بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات کی اہمیت کا پتہ ہے جس کی وجہ سے بچوں کو بروقت پولیو کے قطرے اور دیگر امراض کے ٹیکے لگائے جانے کی وجہ سے ملیر کے مقامی گوٹھوں میں پولیو کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے خواتین کا احترام کیا جاتا ہے مہمان کی آؤبھگت کی روایت موجود ہے اور ان کیلئے مقامی باشندے بھرپور مہمان نوازی کرتے ہیں اور مہمانوں کی آمد پر خوش ہوتے ہیں مہمان نوازی کے یہی مناظر مجھے اور میرے ساتھ دوستوں کو ہاشم خاصخیلی گوٹھ میں بھی نظر آئے میرے لیئے ملیر کے نواحی گوٹھوں میں جاکر لوگوں سے ملنا ان کے ساتھ قانون کی آگہی کے حوالے سے نشستیں کرنا ان کی سادہ باتوں کو سننا ایک بہترین تجربہ تھا یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ تمام لوگ عدالتی نظام سے خفا تھے جس کی بے شمار وجوہات ہیں ایک خاتون نے بتایا کہ اس کا شوہر کراچی الیکٹرک سپلائی کارپورہشن کا ملازم ہے ان کی پٹیشن پرہائی کورٹ فیصلہ نہیں کرپارہی حالانکہ سپریم کورٹ نے ایک ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اسی دوران ایک اور خاتون نے سادگی سے سمجھایا کہ سپریم کورٹ نے یہ نہیں لکھا کہ وہ مہینہ کونسے سال کا ہوگا ہوسکتا ہے وہ ایک مہینہ 2025 کا ہو، بہرحال غریب کا عدلیہ سے اتنا ہی تعلق ہے غریب عدلیہ کی اتنی ہی عزت کرتا ہے جتنی عدلیہ نے غریب کو دے رکھی ہے غریبوں کے دل میں بھی عدلیہ کے لیئے اتنا ہی درد ہے جتنا عدلیہ غریب کیلئے محسوس کرتی ہے میرے ساتھ میرے دوست شعیب صفدر گھمن، زوہیب آرایئں اور شفقت بھی تھے جنہوں نے وہاں منعقدہ پروگرامات میں میرا بھرپور ساتھ دیا کراچی کے قدیم گوٹھ ایک قیمتی اثاثہ ہیں