سندھ کے باسیوں کیلئے یہ خبر حیرت کا باعث
سندھ کے باسیوں کیلئے یہ خبر حیرت کا باعث ہے کہ شاہ زیب کے قاتلوں کو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالا ہے جدید دور میں کسی بھی مجرم کا قانون سے بچنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے کیونکہ جدید شواہد اور تفتیش کی بنیاد ریاست سے منسلک سرکاری اورکورٹ میں گھومنے والے کرائے کے گواہوں نہیں بلکہ ساینسی بنیادووں پر جمع کیئے گئے شواہد پر ہے جن میں فنگرپرنٹ،ڈی این اے ٹیسٹ ،موبائل فون ریکارڈ،کلوزسرکٹ کیمرے کی ریکارڈنگ اوربینک ٹرانزیکشن وغیرہ مختصر یہ کہ پاکستان میں جرائم کے خاتمے کےلیئے وہ تمام زرائع موجود ہیں جن کو استعمال میں لاکر جرم کا خاتمہ ممکن ہے اہم رکاوٹ تفتیش کے دوران وسائل کے استعمال اورسماعت کے دوران عدلیہ کی نااہلی اور مشکلات ہیں کیونکہ عدلیہ کی بھی مجبوری ہے کہ وہ مخصوص وکلاء کو ریلیف دے یعنی انصاف کا قتل کرے کیونکہ اگر کچھ خاص قسم کے وکلاء کو ریلیف نہ دیاجائے تو بار اور بنچ کے تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ظاہر ہے باراور بنچ گاڑی کے دوایسے پہیئے ہیں جن کا ساتھ چلنا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل کراچی میں بار کے صدارت اور جنرل سیکرٹری کے الیکشن کے اخراجات ایک کروڑ روپیہ اور لاہور میں دو کروڑ سے بھی تجاوز کرگئے ہیں یہ اخراجات قتل کے ایک کیس کے ضمانت کے ریلیف سے ہی پورے ہوجاتے ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر کا ایک "چیمبر" اسٹے سارے خرچے نکال دیتا ہے کچھ خاص لوگوں کے آڑ میں کچھ مخصوص لوگ بھی شامل ہوجاتے ہیں جن کے ریلیف میں ریلیف دینے والے کا بھی" ریلیف" شامل ہوتا ہے اسی طرح کچھ ریلیف کورٹ کے "خاص اسٹاف" کیلئے بھی ہوتا ہے اس ریلیف میں ریلیف خاصا تقسیم ہوجاتاہے تفتیشی پولیس کے بغیر ریلیف کا عمل ناممکن ہے اور وہ کیس کو کمزور کرکے شواہد کو ضائع کرنے کے بعد مدعی اور ملزم سے کیس کے اخراجات کی مد میں اچھی خاصی رقم وصول کرنے کے بعد مبہم قسم کاچالان پیش کرتی ہے جس کو بغیر مطالعہ کرکے بعض مجسٹریٹ حضرات انتظامی آرڈر کردیتے ہیں انصاف کی راہ میں سب بڑی غلطی یہاں ہوتی ہے جب مجسٹریٹ پولیس چالان پر انتظامی نوعیت کا آرڈر کررہاہوتا ہے تو اس وقت تمام اسٹیک ہولڈرز کے دل دھڑک رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب کسی بے گناہ کے قاتل کو ایک انتظامی آرڈر کے زریعے اصل تحفظ دیا جا تا ہے لیکن اب کچھ مجسٹریٹ حضرات اپنی زمہ داری کا احساس کرتے ہیں اور مطالعہ کرنے کے بعد تفتیش کی کمزوریوں کو دور کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کسی تفتیشی افسر کے خلاف باقاعدہ کاروائی کا رواج نہیں ہے چونکہ شعبہ تفتیش کو مستقل ریلیف ملتا ہے اس لیئے ان کو ریلیف حاصل کرنے کے لیئے عدلیہ کو زیادہ ریلیف نہیں دینا پڑتا ملزمان اور مدعی سے حاصل شدہ ریلیف سے سب سے زیادہ فائدہ تفتیشی افسران ہی کو ہوتا ہے ایک تفتیشی افسر کا قول ہے "پولیس کا بے گناہ کبھی عدالت میں گناہ گار نہیں ہوسکتا" جب کیس کی سماعت کے دوران کمزور تفتیش سامنے آتی ہے تو اس وقت اصل قصور وار عدالت اپنے مجسٹریٹ کو نہیں قراردیتی بلکہ پولیس کو ہی قرار دیاجاتا ہے حالانکہ پولیس اور عدلیہ جرائم کو قانونی تحفظ دینے میں برابر کے شریک ہیں پولیس کی کمزور تفتیش کو مکمل عدالتی تحفظ حاصل ہوتا ہے اور کیا پولیس کی تفتیشی رپورٹ پر مجسٹریٹ انتظامی آرڈر نہیں کرتا ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد کسی بھی ملزم کو جو عدالت میں تکلیف ہوتی ہے وہ تاریخیں لگانے کی ہے کیونکہ کیس میں تاخیر سے ان کو عدالت سے باعزت بری ہونے کا جو سرٹیفیکیٹ ملتا ہے اس میں کافی تاخیر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قبول داری کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے "قبول داری" یہ وہ ریلیف ہے جس کو سن کرآپ کا دل دیوار پر ٹکریں مارنے کو کرے گا اس لیئے اس ریلیف کا زکر ہی نہیں کرتے اب پولیس میں ایک نیا رواج چل نکلا ہے کہ وہ ملزم گرفتار ہی نہیں کرتی مختصر یہ ہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے انصاف کی فراہمی ناممکن ہوچکی ہے کتنی ہی جوڈیشل پالیسیاں آجائیں کتنی ہی عدلیہ آزاد ہوجائے پولیس اور عدالتوں کی بھی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے کافی مشکل ہوجاتی ہے لیکن شاہ زیب قتل کیس ایک روشن مثال ہے کہ اگر عدلیہ اور پولیس چاہیں تو کسی بھی ملزم کو پاتال سے بھی ڈونڈھ کر نکالاجاسکتاہے لیکن اس ایشوپر بحث کی ضرورت ہے یہ بھی ایک الگ بحث ہے کہ کیا ہم جرائم کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں یا صرف اور صرف عدالتی فیصلے کرنا چاہتے ہیں چیف جسٹس پاکستان یہ ایک حقیقت ہے کہ فوجداری عدالتیں اپنی سمت کا تعین کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں جرائم پرورش پارہے ہیں
SAFIUDIN AWAN
03343093302